منگل، 11 اپریل، 2017

حضور کے علاوہ کسی دوسرے پر درود و سلام پڑھنا کیسا ہے؟


🌙5-ذی قعدہ - 1436- ھجری.⭐
☀21-اگست- 2015 -عیسوی☀

مسئله نمبر (209)

سوال: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے پر درود و سلام پڑھنا جائز ہے یا نہیں ...؟

الجواب بتوفیق اللہ تعالٰی
انبیاء کرام کے علاوہ کسی دوسرے پر صلاۃ و سلام پڑھنا جائز نہیں ہے،
البتہ انبیاء کے تابع کرکے دوسروں کو صلاۃ وسلام میں شامل کیا جاسکتا ہے، جیسے صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وازواجہ... الخ
یعنی درود و سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کی آل اولاد پر، اور آپ کے اصحاب پر، اور آپکی ازواج مطہرات پر، وغیرہ وغیرہ،
"قال فی المرقاۃ: وقال محمد الجوینی: السلام کالصلاۃ یعنی لا یجوز علی غیر الانبیاء والملائکۃ الا تبعاً"
( مرقاۃ المفاتیح، الصلاۃ /باب الصلاۃ علی النبی وفضلھا٣/ ٧ رقم: ٩٢٠)
بحوالہ کتاب النوازل١/ ٤٨٨)
واللہ اعلم بالصواب

सवाल: नबी सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम के अलावा किसी दूसरे पर दरुद व सलाम पढ़ना जायज है या नहीं ...?

जवाब:
अंबिया किराम के अलावा किसी दूसरे पर सलात व सलाम पढ़ना जायज नहीं है,
अलबत्ता नबियों के अधीन (ताबे)  करके दूसरों को भी सलात व सलाम में शामिल किया जा सकता है, जैसे सल्लल्लाहु अलैहि व आलिही व असहाबिही व अजवाजिही....
यानी दरुद व सलाम हो आप सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम पर, अपनी संतान (औलाद) पर, और आप के सहाबा पर, और आपकी पत्नियों (बीवियों) पर , वगैरह वगैरह,

مفتی معمور-بدر مظاہری، قاسمی (اعظم-پوری)
.
मुफ़ती मामूर-बदर मज़ाहिरी, क़ासमी (आज़म-पुरी)
फ़ोन नं.

چھوٹے بچوں کو مسجد میں لاناکیسا ہے؟


🌙5-ذی قعدہ - 1436- ھجری.⭐
☀21-اگست- 2015 -عیسوی☀

مسئله نمبر (210)

سوال: کتنی عمر کے بچوں کو نماز کے لیے اپنے ساتھ مسجد لے جاسکتے ہیں...؟

الجواب بتوفیق اللہ تعالٰی
اس مسئلہ سے متعلق کتاب وسنت میں کوئی خاص تحدید( عمر ) وارد نہیں ہوئی ہے،
لیکن یہاں دوسرا پہلو مسجد کے تقدس و احترام اور نظافت و صفائی کا ہے، جس کا پاس و لحاظ رکھنے کی انتہائی تاکید آئی ہے۔
جامع ترمذی وغیرہ میں ہے:
"عن عائشة قالت: امر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب"

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہر ہر محلہ میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا، اور یہ حکم فرمایا کہ وہ صاف اور خوشبودار رکھی جائیں۔“
(جامع ترمذی، ابواب ما یتعلق بالصلوة، باب ما ذکر فی تطییب المساجد ج:۱، ص:۱۳۰)

اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث میں مسجد کی تعظیم اور اس کو قابلِ نفرت چیزوں سے پاک و صاف رکھنے کی تعلیم ہے۔“
اسی طرح مسجد میں ہر ایسے کام سے منع کیاگیا، جس سے اس کا احترام ختم ہوجائے، یا جس سے عبادت میں مشغول لوگوں کے دل پراگندہ ہوں۔ چنانچہ مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان، خرید وفروخت اور بازاروں جیسا شور وشغب، حمدونعت اور ضرورتِ شرعیہ کے بغیر اشعار سنانا یا بیت بازی کرنا، قصاص لینا اور سزائیں جاری کرنا، جنبی اورحائضہ یا نفساء کا داخل ہونا، اور بدبودار چیزوں کو مسجد میں لے جانا، یا خود بدبودار ہوکر مسجد میں جانا وغیرہ امور سے ممانعت احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ اسلئے کہ یہ سب امور احترامِ مسجد کے خلاف ہیں، اور ان میں سے بعض میں اللہ کے نیک بندوں یعنی فرشتوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

بہرحال کن بچوں کو مسجد میں لانے کی اجازت ہے اور کن کے لیے ممانعت ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ نابالغ بچوں کی تین قسمیں ہیں:
(۱)    وہ بچے جو اتنے ناسمجھ اور کم عمر ہوں، کہ انھیں پاکی و ناپاکی اور مسجد وغیرہ مسجد کا بالکل شعور نہ ہو، اور ان سے مسجد کے ناپاک ہوجانے کا ظن غالب ہو، ایسے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں، مکروہ تحریمی ہے۔

ایسے ہی بچوں کے بارے میں حدیث ہے کہ:
"جنّبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم"
(سنن ابن ماجہ،ص:۵۵)
”تم اپنی مسجدوں کو اپنے بچوں اور پاگلوں سے بچاؤ، اور دور رکھو، یعنی ان کو مسجدوں میں نہ آنے دو"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
"وقد کان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ اذا رأی صبیانا یلعبون فی المسجد ضربہم بالمخفقة وہی الدرة․ (تفسیر ابن کثیر،ج:۳،ص:۲۷۵)
”حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جب بچوں کو مسجد میں کھیلتے ہوئے دیکھتے تھے، تو ان کو درہ سے مارتے تھے۔“

(۲)   وہ بچے جو تھوڑی بہت کچھ سمجھ رکھتے ہوں، اور ان سے مسجد کی بے حرمتی اور ناپاک ہونے کا قوی اندیشہ نہ ہو، انھیں مسجد میں لاسکتے ہیں، مگر بہتر یہ ہے کہ نہ لایاجائے۔
(۳)   وہ بچے جو پوری طرح باشعور اور باتمیز ہوں، پاکی وناپاکی کو سمجھتے ہوں اور مسجد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوں، انھیں مسجد میں لانا بلاکراہت جائز ہے، بلکہ نماز کی عادت ڈالنے کے لیے لانا ہی چاہیے۔

پھر یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سن تمیز وشعور ہر بچے میں یکساں نہیں ہوتا، بلکہ استعداد فطری کے لحاظ سے یہ عمر ہر بچے میں مختلف ہوتی ہے، اس لیے باشعور ہونے کی عمر کی تحدید و تعیین نہیں ہوسکتی، اس اعتبار سے سات سال سے کم عمر بچہ بھی باشعور ہوسکتا ہے، جبکہ اس کی دینی تربیت اور اخلاق وآداب کی تعلیم اچھی طرح ہوئی ہو۔ ویسے شعور کی ابتداء عام طور پر سات سال کی عمر میں ہوتی ہے، اور دس سال کی عمر میں اس کی تکمیل ہوتی ہے، اس لیے حدیث پاک میں سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دینے اور دس سال کی عمر میں نماز چھوڑنے پر تادیب کا امر فرمایا گیا ہے، اور پندرہ سال میں عقل وجسم میں پختگی آتی ہے، اس لیے اس وقت احکامِ شرع کا مکلف قرار دیا جاتا ہے، جبکہ اس سے پہلے بلوغ کو نہ پہنچا ہو۔
"فی العلائیة: ویحرم ادخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسہم والا فیکرہ․
وفی الشامیة تحتہ: (قولہ ویحرم الخ) ․․․ والمراد بالحرمة کراہة التحریم ․․․ والا فیکرہ ای تنزیہا․ تأمل" (رد المحتار، کوئٹہ،ج:۱،ص:۴۸۶)
وفی التحریر المختار: (قول الشارح والا فیکرہ) ای حیث لم یبالوا بمراعاة حق المسجد من مسح نخامة او تفل فی المسجد والا فاذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم من ولیہم فلا کراہة فی دخولہم اھ سندی․
(التحریر المختار، کوئٹہ،ج:۱،ص:۸۶)

بہرحال اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ جو بچے سمجھدار ہوں، پاکی اور ناپاکی کا خیال رکھ سکتے ہوں تو ان کو مسجد میں لانا جائز ہے، یعنی تقریباً چھ سات سال کی عمر کے بچے، 
اور جو اس سے کم عمر ہوں انہیں مسجد میں لانا جائز نہیں ہے،
( آپکے مسائل اور انکا حل٣/ ٢٧٦)
واللہ عالم بالصواب

सवाल: कितनी उम्र के बच्चों को न